ترجیحات درست کرنے کی ضرورت

وزارت توانائی نے اگلے روز ایک پارلیمنٹری کمیٹی کے سامنے اس بات کا اعتراف کیا کہ آج کل ملک میں جو باربار جگہ جگہ پاور بریک ڈاؤن ہورہا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹرانسمشن نیٹ ورک کی تاریں پرانی اور بوسیدہ ہو چکی ہیں جو بجلی کا پورا لوڈ اٹھانہیں سکتیںیہ بات قابل ذکر ہے کہ جب (ن)لیگ کی حکومت کی آئینی مد ت ختم ہو رہی تھی تو اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اب سسٹم میں سرپلس بجلی آ چکی ہے لیکن اس دعویٰ کے برعکس وزارت انرجی کے سرکاری اہلکاروں نے سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کو بتلایا کہ ملک میں اس وقت بھی تقریباً ساڑھے چار ہزار میگا واٹ بجلی کاشارٹ فال ہے ان سرکاری اہلکاروں نے پارلیمانی کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ سابقہ حکومت نے اپنا سارا زور پاور جنریشن پر ہی لگایا ہوا تھا اور ٹرانسمشن لائنز اور ڈسٹری بیوشن سسٹم کی اپ گریڈیشن اس کی نظر سے اوجھل رہی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بجلی کے محکمے میں اس کے وزیر سے لیکر متعلقہ ٹیکنیکل اہلکاروں تک کیوں کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ سسٹم میں اگر بجلی وافر مقدار میں شامل کر بھی لی جائے تو اس کو عوام تک پہنچانے کیلئے ٹرانسمشن لائنز کی بھی ضرورت پڑے گی ‘کسی منچلے نے اس ملک کے حکمرانوں کے عجیب و غریب کام دیکھ کر بالکل درست کہا ہے کہ اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی اب ذرا سوچئے نا کیا ضرور ت تھی الیکشن کمیشن کو کہ اس نے اپنی ویب سائٹ سے امیدواروں کے اثاثوں کی تفصیلات ہٹادیں؟ پارلیمنٹ نے الیکشن کمیشن سے سفارش کی تھی کہ وہ ویب سائٹ پر ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی ڈکلریشن جاری نہ کرے عوام الناس کو معلوم ہونا چاہئے کہ رکن اسمبلی کے پاس کتنا دھن ہے عوام کو اس معاملے میں اندھیرے میں کیوں رکھا جائے ۔

یہ بات تو طے ہے کہ اس ملک میں صاحب اقتدار لوگوں نے اپنی سرکاری پوزیشن سے اکثر ناجائز فائدہ اٹھا کراپنی دولت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے ان پر چیک اوربیلنس رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ان کے اثاثوں کے حجم پر گہری نظر رکھی جائے ایک دیانتدار شخص کو جو رزق حلاق کمانے پر ایمان رکھتا ہے عوام سے اپنے اثاثے چھپانے کی کیا ضرورت ہے عوام سے وہ سیاستدان معلومات چھپاتا ہے جس کے دل میں کوٹ ہوتاہے موبائل کارڈ کے ہر لوڈ پر ایک اچھی خاصی رقم حکومت کاٹتی چلی آ رہی ہے سپریم کورٹ نے اچھا کیا جو اس روش کا از خود نوٹس لیا ایک تو اس ملک میں عوام کیساتھ بڑا ظلم یہ ہوتا آ رہا ہے کہ ٹیکس تو اس سے کاٹ لئے جاتے ہیں لیکن ان کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان سے وصول کی گئی رقم کا صحیح مصرف بھی ہو رہا ہے یا نہیں اب حکومت یہ رونا رو رہی ہے کہ موبائل کارڈ ٹیکس معطلی سے وفاق و صوبوں کی سالانہ آمدنی 125ارب روپے کم ہو جائے گی بھئی ہوتی ہے تو بے شک کم ہو جائے حکومت اس ٹیکس کے بجائے ان موٹی گردنوں اور توندوں والوں پر ویلتھ ٹیکس کیوں نہیں لگاتی جو ہر سال بزنس یا فرسٹ کلاس میں یورپ ‘ امریکہ اور عزب امارات کے کئی کئی چکر لگاتے ہیں ۔

جن کے بچے ملک کے اندر یا بیرون ملک مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں جو کئی کئی کنالوں پر محیط بنگلوں میں رہائش پذیر ہیں اور جن کے زیر تصرف بی ایم ڈبلیو گاڑیاں ہیں ان کی تو ہر چیز ہر خرچہ ڈاکومینڈہے ان پر ٹیکس لگانے سے پہلے کسی قانون سازی کسی مزید تفتیش کی تو ضرورت ہی نہیں لیکن ان کو اس لئے کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے کہ ان کے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی ایوان اقتدار اور پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں اور آئندہ بھی انہی لوگوں نے مسند اقتدار پر بیٹھنا ہے پانی کے بحران کے بارے میں کافی کچھ کہا جا چکا ہے لیکن یہ موضوع ایسا ہے کہ اب ٹھوس ایکشن لینے کا وقت ہے ہماری دانست میں تو یہ بات بڑی عجیب لگتی کہ ہمارے جیسے ملک میں پانی کا بحران پیدا ہو کیونکہ یہاں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے ‘ یہاں سندھ جیسا شیر دریا بہتا ہے کہ جس کا 80 فیصد پانی ہمالیہ سے آتا ہے جہاں ہر دو چار سال بعد سیلاب آ جاتا ہو بارشوں کی وجہ سے اور جہاں 22 ملین ایکڑ فٹ پانی ہم سمندر میں پھینک کر ضائع کر دیتے ہوں تو پھر آخر مسئلہ کیا ہے ؟ مسئلہ دراصل حکمت عملی کا ہے پاکستان اپنے بہتے پانی کا فقط10 فیصد ہی ذخیرہ کر پاتا ہے جبکہ دنیا میں یہ اوسط40 فیصد ہے حل یہ ہے کہ باقی 30 فیصد کا بھی ذخیرہ کیا جائے۔

H2
H3
H4
3 columns
2 columns
1 column
Join the conversation now
Logo
Center