دنیا میں قومی، ملی اور دینی تقریبات کو منانے کا سلسلہ زمانہ قدیم سے جاری ہے اور دنیا کی ہر قوم کسی نہ کسی انداز اور رنگ میں ان تقریبات کا اہتمام کرتی ہے، جشن مناتی ہے، خوشیوں کے شادیانے بجاتی ہے، لیکن اُن کا جشن اور یوم عید عیش و عشرت اور نفسانی خواہشات کے تابع اور شہوانی لذتوں پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ اسلام کا تصور عید نرالی ہی شان کا حامل ہے اور اِس کے منانے کے انداز و اطوار دیگر قوموں کے طور طریقوں سے بالکل مختلف، جدا اور الگ ہیں، ایک مسلمان کی عید احکام الہٰیہ کے ماتحت اور اُس کی خوشیاں رضائے الہٰی کے تابع ہوتی ہیں، اُس کا ہر فعل اپنے ربّ کی خوشنودی کیلئے ہوتا ہے اور اُس کا جشن طرب روحانیت کی تکمیل اور سعادت دارین کے حصول کیلئے ہوتا ہے، ایک مسلمان مومن ِصادق کی سچی خوشی اور حقیقی نشاط کا راز اِس بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنا تن من دھن سب کچھ اپنے آقا و مولا کے سپرد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ” میری نماز، میری عبادات، میرا جینا، میرا مرنا اُس رب العلمین کیلئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں“ یہ حقیقت ہے کہ اسلام دین فطرت ہے، اُس نے غم اور خوشی کو منانے کے طریقے مقرر کرتے ہوئے اُن تمام غیر فطری رسوم و رواج کے پردوں کو بھی چاک کیا ہے جسے امتداد زمانہ اور انسان کی لاعلمی اور جہالت نے عید (یعنی خوشی) کے رخ روشن پر ڈالا تھا، اسلام اپنے ماننے والوں کو خوشی کے موقع پر عید منانے کی اجازت دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد اپنے خالق و مالک کی اطاعت و عبادت ہے، وہ یاد دلاتا ہے کہ ایک مسلمان خواہ راحت میں ہو یا مصیبت میں اُسے کسی بھی حال میں اپنے خالق سے رشتہ نہیں توڑنا چاہیے، ہر حال میں اپنے ربّ کی اطاعت و بندگی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، کیونکہ وہی کبریائی کا حق دار اور حاکمیت و الوہیت کا مستحق ہے اور حمد و ثنا کا ثنا سزا وار ہے، اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ عید منانا اور جشن و طرب کے ایام مقرر کرنا فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہے، تم عید مناؤ، خوشی و مسرت ،فرح و سرور کا اظہار کرو، مگر جشن و نشاط میں اپنی ہستی کو فراموش مت کرو، اپنے حقوق و فرائض سے غافل نہ ہوجاؤ اور اپنے خالق کو مت بھول جاؤ۔
آج ایک بار پھر اسی پیغام کو لے کر عید کا دن ہمارے درمیان موجود ہے، لیکن اِس خوشی و انسباط کے موقع پر سوچ رہا ہوں کہ اپنے اہل وطن کو کون سا تحفہ پیش کروں، خوشی کی کون سی کہانی سناؤ، قلبی و روحانی آسودگی کا کون سا سامان پیدا کروں کہ بجھے ہوئے خشک ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر جائے، زخم مندمل ہوجائیں اور قلب و روح میں اطمینان و طمانیت کا احساس پیدا ہوجائے لیکن شاید آج میں ایسا نہ کر پاؤں، اِس لئے کہ عراق، افغانستان، کشمیر سے لے فلسطین تک پوری اُمت مسلمہ لہو رنگ ہے، بالخصوص ارض وطن پاکستان کی سر زمین اپنے ہی سپوتوں کے خون سے رنگین ہے، ملک کے دو صوبوں میں نفرت اور بغاوت آگ لگی ہوئی ہے، ہر طرف غم اور سوگ کی کیفیت ہے، ہم جدھر کان لگائیں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی آہ و بقا، خوفناک چیخیں اور سسکیاں سنائی دیتی ہیں، جس سمت نظر اٹھائیں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، بے گورو کفن لاشے اور کٹے پھٹے جسم پڑے ہیں، اجڑی ہوئی بستیاں اور جلتے ہوئے گھر ہماری دینی غیرت و حمیت پر نوحہ کناں ہیں، یہی حال پورے عالم اسلام کا ہے، کشمیر، فلسطین، بوسنیا، چیچینا، جیسے ممالک میں اسلام کا نام و نشان مٹانے کیلئے سروں کی فصل کٹ رہی ہے، افسوس تو اِس بات کا ہے کہ ہم اپنے دشمن کو ازل سے پہچانتے ہوئے بھی اُس کی گود میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں، ہر بار وہ ایک ہاتھ سے ہماری پشت میں خنجر گھونپتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے ہمارے منہ میں خیرات کا نوالہ ڈالتا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہی ہمارا آقائے نعمت ہے، گویا ہم عزت و وقار کی دولت سے تو محروم تھے ہی اب عقل و شعور سے بھی عاری ہوتے جارہے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر اور مراکش سے مغربی ایشیاء اور مشرق بعید تک پھیلی ہوئی ہر نعمت سے مالا مال اللہ تعالیٰ کی یہ پسندیدہ اُمت اِس درجہ ذلیل و خوار کیوں ہے، غور کیا جائے تو دشمنوں کی ریشہ دوانیوں سے کہیں زیادہ اپنوں کی حماقتیں نظر آتی ہیں، پاکستان ہی کو لیجئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں جغرافیائی اور مالی و سائل کے اعتبار سے بہترین خطہ زمین دیا، لیکن ہم نے اسے غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، آخری اُمت ہونے کے وصف کے ساتھ ہمیں اللہ تعالیٰ کے آخری اور مکمل دین، قرآنی دستور اور سب سے بڑھ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسوہ حسنہ کی صورت میں گھر سے لے کر ایوان اقتدار تک ہر شعبہ حیات میں بہترین راہنمائی میسر تھی لیکن ہم نے شرف و کرامت کی اِن ساری نسبتوں کو اپنے لئے توہین سمجھا، اسلام نے ہمیں محبت و دوستی کا جو معیار دیا تھا، ہم نے اُس کے برعکس کفارو مشرکین سے محبت کی پینگیں بڑھائیں اور اپنوں سے بیگانے ہوگئے، یوں ہم نے دینی شناخت، نظریاتی تشخص، ثقافتی معیار اور علمی برتری کو خود ہی فراموش کردیا، لہٰذا قدرت نے ہمیں عظمت و رفعت کی کہکشاؤں سے اٹھا کر ذلت کی پستیوں میں دے مارا۔
آج پاکستان اپنے درماندہ کارواں کو لے کر اکیسویں صدی میں رینگ رہا ہے، بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال اِس ملک کو گھر کے چراغوں سے ہی آگ لگ گئی، اِس کے محافظ بدقستمی سے تسلسل کے ساتھ اِس ملک کا خون چوستے رہے، اِس کے نظام سیاست و معیشت کی نہ کوئی سمت متعین ہوئی اور نہ ہی کوئی فکر و فلسفہ اور پالیسی، پورے کا پورا نظام ذاتی مفادات کے گرد گھومتا رہا ہے، جو الیکشن میں کامیاب ہوگیا، وہ نقب لگانے میں بھی کامیاب ہوگیا اور اُس نے موقع غنیمت جانتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے ملک لوٹنے کے علاوہ کسی اور تعمیری کام کی طرف توجہ دینے جیسی ضرورت پر وقت ضائع نہیں کیا، سامراجی آقاؤں سے لئے گئے نظام سیاست نے ہمارے سیاستداں کو یہ تحفظ بھی فراہم کیا کہ وہ ہر آنے والی قوت کے کارندے بن جاتے ہیں، خدا ناخواستہ اُن پر ملک میں کوئی کڑا وقت آ بھی جائے تو امریکہ٬ فرانس اور دوسرے یورپی ممالک میں پناگاہیں اُن کی منتظر ہوتی ہیں جہاں وہ بڑے سکون کے ساتھ اپنے کتوں اور گھوڑوں سمیت منتقل ہوکر ملک بدری کے مزے لیتے ہیں، الغرض وہ ملک کے اندر رہیں یا ملک بدر ہوں، اُن کے آرام و سکون اور عیش و عشرت کیلئے ہر نعمت دامن پھیلائے کھڑی رہتی ہے، لیکن غریب و محکوم عوام کہاں جائیں وہ تو زندگی کا بوجھ اٹھا کر دو قدم بھی چلنے کے قابل نہیں رہے ہیں اور اب تو اُن کو اپنی ساری توانائیاں سانسوں کی ڈوری قائم رکھنے کیلئے صرف کرنا پڑتی ہیں، عجیب حال ہے عوام جس قدر بدامنی، مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی کے ہاتھوں نیم جاں ہیں، یہ مراعات یافتہ طبقہ اُسی قدر خوش باش اور توانا دکھائی دیتا ہے، عوام کا خون نچوڑ کر اپنے مفادات کے عالیشان محل تعمیر کرنے والے قوم کے وسائل کو اپنے لئے شیر مادر سمجھتے ہیں، اِن تمام تلخ حقیتوں کے باوجود سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ِان لیڈروں کو بار بار ملک و قوم کی تقدیر کے ساتھ کھیلنے کے موقعہ کون دیتا ہے، کیا ہمارا ووٹ انہیں ایوان اقتدار تک پہنچانے کا باعث نہیں بنتا، ایک دو بار نہیں قوم اپنے ساتھ پچھلے 62سالوں سے یہ مذاق خود کررہی ہے، بات طبقاتی اونچ نیچ اور اقتصادی تفاوت تک محدود رہتی تو کسی حد تک قابل برداشت ہوتی لیکن اب تو بات اِس حد تک آگے بڑھ چکی ہے کہ ہماری بقاء و سلامتی بھی خطرے میں پڑی ہوئی ہے، دشمن ہماری طاق میں ہے، وہ ہمیں تباہ و برباد کرنے پر تلا ہوا ہے، ملک کے دو صوبے آگ و خون کی لپیٹ میں ہیں، لاکھوں افراد اپنے گھروں سے دور کھلے میدانوں میں بے یارو مددگار بے سرو سامانی کے عالم میں پڑے ہوئے ہیں، غربت و بھوک اور بے روز گاری کی یہ حالت ہے کہ غریب اپنے معصوم بچوں کے دامن میں برائے فروخت کے بورڈ آویزاں کرنے پر مجبور ہیں، روپے پیسے کی حرص میں بچوں اور خواتین کی اسمگلنگ تو رہی ایک طرف اُن کے گردے اور دیگر اعضاء بیچے جارہے ہیں، بدامنی اور انارکی کی حالت یہ ہے کہ لوگ گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہوئے سو بار سوچتے ہیں، اندرونی اور بیرونی دباؤ کی وجہ سے حکومت کے ستون ڈگما رہے ہیں، ہر آنے والے دن کے ساتھ خطرات بڑھتے جارہے ہیں، یہی حال دنیا بھر میں مسلمانوں کا ہے جو ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں، اسلامی تہذیب و ثقافت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، قوانین الہیٰہ کے ساتھ مذاق ہورہا ہے، لیکن ہمارے سیاسی رہنماؤں نے قوم کو سوئے حرم متوجہ کے بجائے امریکہ کو اپنا قبلہ و کعبہ بنالیا ہے۔
اس تناظر میں آج عید کا دن ہمیں دعوت فکر و عمل دے رہا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے پیکر تسلیم و رضا بن کر اعلائے کلمة اللہ کیلئے جو قربانی دی تھی اُس سلسلے کو جاری رکھا جائے اور تمام دینوی حرص و لالچ، جاہ و منصب اور دولت و ثروت کے بتوں کو مثل خلیل توڑ دیا جائے، آج پاکستان اور دین اسلام کو اسی طرح کی قربانی درکار ہے، ہمیں اپنے دائرہ کار اور اختیار کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہونگی اور بحیثیت مسلمان اِس ذمہ داری سے ہم کسی طور بھی بری الذمہ نہیں ہوسکتے، آج پھر صنم کدہ جہاں میں غیرت ابراہیمی کی ضرورت ہے، باطل سامراج کی شکل میں ہزاروں نمرود وقت حق کے متوالوں کو للکار رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ کون ہے جو عشق کی راہ میں جان و مال کی قربانی پیش کرنے کیلئے آتش نمرود میں بے خطر کودنے کو تیار ہے، عید قرباں کے یہ لمحے اپنے پس منظر اور پیش منظر میں اُسی قربانی کا پیغام رکھتے ہیں، جس کی ابتداء سیدنا اسماعیل اور انتہا سیدنا امام حسین علیہ السلام نے کی، آج عرفات کے رہگزاروں سے لے کر میدانِ کربلا ذروں تک سے یہ آواز مسلسل آرہی ہے کہ چاہے تمہارے سامنے آتش نمرود کے آلاؤ آئیں …یا… یزیذی فوج کے لشکر….نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والے ….غلاموں….جاگو ….اٹھو…. اور ایمان اور تقویٰ کے ہتھیاروں سے لیس ہوکر دین کی دشمن قوتوں کو للکارو، اپنے ذاتی مفادات کی قربانی دیتے ہوئے قافلہ حق میں داخل ہوکر باطل کے سامنے ڈٹ جانے کیلئے تیار ہوجاؤ کیونکہ یہی رمز مسلمانی اور اُمت کے درد کا اصل درماں ہے ۔
سوچیئے گا ضرور۔۔۔
اور آگاہ ضرور کیجیئے گا کہ کیا رائے ہے آپ سب کی؟
پر جواب دینے سے پہلے ہم سب خود کو آئینہ میں ضرور دیکھنا ہو گا۔
حسبی اللہ لا الہ الا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم – ، القرآن سورتہ توبہ، آیت 129
اللہ سبحان وتعالی ہم سب کو مندرجہ بالا باتیں کھلے دل و دماغ کے ساتھ مثبت انداز میں سمجھنے، اس سے حاصل ہونے والے مثبت سبق پر صدق دل سے عمل کرنے کی اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں ہماری تمام دینی، سماجی و اخلاقی ذمہ داریاں بطریق احسن پوری کرنے کی ھمت، طاقت و توفیق عطا فرما ئے۔ آمین!
(تحریر – محترم محمد احمد ترازی)
مندرجہ بالا تحریر سے آپ سب کس حد تک متفق ہیں یا ان میں کوئی کم بیشی باقی ہے تو اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کر کے میری اور سب کی رہنمائی کا ذریعہ بنئیے گا۔ کیونکہ ہر شخص/فرد/گروہ/مکتبہ فکر کا اپنا اپنا سوچ اور دیکھنے کا انداز ہوتا ہے اور اس لیے ہمیں اس سب کی سوچ و نظریہ کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کی کسی بات/نکتہ کو قابل اصلاح پائیں تواُس شخص/فرد/گروہ/مکتبہ فکر یا ادارئے کی نشاندہی اور تصیح و تشریح کی طرف اُن کی توجہ اُس جانب ضرور مبذول کروائیں۔
نوٹ: لکھ دو کا اپنے تمام لکھنے والوں کے خیالات سے متفق ہونا قطعی ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی لکھ دو کے پلیٹ فارم پر لکھنا چاہتے ہیں تو اپنا پیغام بذریعہ تصویری، صوتی و بصری یا تحریری شکل میں بمعہ اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، لنکڈان، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ admin@likhdoo.com پر ارسال کردیجیے۔